مزار حضرت سیدنا یوسف
بنی اسرائیل جب رات کو چلے تو آگے جنگل میں جا کر راستہ بھول گئے اور اُنہیں پتا نہ چل سکا کہ کہاں جا رہے ہیں؟ حضرت سیدنا موسیٰ اللہ نے قوم کے بوڑھوں کو بلا کر سبب پوچھا تو اُنہوں نے کہا کہ جب حضرت سیدنا یوسف العلی کے انتقال کا وقت آیا تو انہوں نے اپنے بھائیوں سے وعدہ لیا کہ جب مصر سے باہر نکلو تو مجھے بھی ساتھ لے جانا۔ اس وجہ سے راستہ بند رہے گا۔ حضرت سیدنا موسیٰ اللہ نے پوچھا: اُن کا مزار کہاں ہے؟ اُن کے مزار کا علم سوائے ایک بڑھیا کے کسی کو نہ تھا۔ اُس بڑھیا سے دریافت کیا گیا تو اُس نے حضرت سیدنا موسیٰ الکل سے عرض کی : اگر میں بتادوں تو کیا میری منہ مانگی بات مان لو گے۔ حضرت سیدنا موسیٰ ال نے فرمایا: اللہ تبارک و تعالیٰ جل مجدہ الکریم سے پوچھتا ہوں جیسے وہ فرمائے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ بے کس پناہ میں یہ معاملہ پیش کیا تو حکم ہوا کہ اُسے فرما دیجئے کہ تیرا سوال پورا کیا جائے گا۔
بوڑھی نے کہا: میں ایک طویل عمر بوڑھی ہوں چل نہیں سکتی مجھے ایک سواری عطا ہو اور مصر سے مجھے بھی نکال لے چلو ۔ یہ تو دنیا وی سوال ہے اور آخرت میں یہ چاہتی ہوں کہ جہاں آپ ال کی قیام گاہ ہو میں آپ ا کے ساتھ رہوں ۔ حضرت سیدنا موسیٰ اللصلى الله عليه وسلم نے فرمایا: تیرے سوال دونوں پورے کئے جائیں گے۔ بڑھیا نے عرض کیا : حضرت سیدنا یوسف الکلے ہوا کا مزار دریائے نیل کے اندر ہے۔
دُعا فرمائیے! اس سے پانی ہٹ جائے۔ چنانچہ حضرت سیدنا موسیٰ اس نے دُعا مانگی اور ساتھ یہ بھی عرض کیا کہ طلوع فجر نہ ہو جب تک کہ ہم حضرت سیدنا یوسف کا مزار تلاش کر کے انہیں ساتھ نہ لےچلیں۔ چنانچہ حضرت سیدنا موسیٰ العلی نے اُس جگہ کو کھدوا کر قبر سے صندوق مبارک
( جو صنوبر کا تھا ) نکال لیا۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا موسیٰ ال نے حضرت سیدنا یوسف اللی کا صندوق دریا کی موج سے اللہ تبارک و تعالی جل مجد الکریم کی دی ہوئی توفیق سے نکالا۔ یہ وہ پہلا علم ہے جو اللہ تبارک و تعالٰی نے عنایت فرمایا اور سب سے پہلے یہ علم حضرت سیدنا آدم القلب کو عنایت ہوا پھر سلسلہ در سلسلہ بطور وراثت عطا ہوتا رہا۔ آخر حضرت سیدنا یوسف ال کے صندوق کو اُٹھایا گیا اور شام میں جا کر دفن کیا گیا۔
اُس کے بعد اُن پر راہ کھل گئی اور چل پڑے۔ حضرت سید نا ہارون ال قوم کے آگے اور حضرت سیدنا موسیٰ ال قوم کے پیچھے پیچھے ۔ اے جب فرعون کو علم ہوا تو قوم کو جمع کر کے بنی اسرائیل کے تعاقب کو نکلا۔ اُن سب کے آگے والے لشکر ( جو کہ سترہ لاکھ تھا ) میں ہامان کو بھیج کر روانہ کیا کہ جس میں تمام گھوڑوں پر سوار تھے ۔ ان میں کوئی مادہ گھوڑی نہ تھی اور ہر ایک کے سر پر خود اور ہاتھ میں تلوار تھی ۔
اُدھر بنی اسرائیل چل کر جب دریا کے کنارے پہنچے تو دیکھا کہ دریا اپنی پوری طغیانی میں تھا۔ یہاں تک کہ فرعون کا لشکر قریب آ گیا۔ اشراق کا وقت تھا فرعون نے بنی اسرائیل کو دیکھ کر اپنی جماعت سے کہا: یہ تو بہت قلیل جماعت ہے۔
ادھر بنی اسرائیل فرعونیوں کو دیکھ کر گھبرائے اور حیرانگی میں حضرت سیدنا موسیٰ ال کو عرض کرنے لگے : اے موسیٰ (علیک السلام!) آپ ال ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے تو بھی ہم دُکھ میں تھے اور اب آپ صلى الله عليه وسلم کی پیدائش کے بعد بھی ہمیں تکلیف سے نجات نہیں ملی کیونکہ دریا ہمارے آگے ہے اگر آگے بڑھیں تو ڈوبتے ہیں اور پیچھے فرعون ہمارے قریب آ پہنچا ہے جو ہمیں مارے بغیر نہیں رہے گا۔ اب کیا کیا جائے؟ بتائیے آپ ال کے رب کا وعدہ کہاں ہے؟
Shrine of Hazrat Syedna Yusuf | مزار حضرت سیدنا یوسف
حضرت سیدنا موسیٰ اللہصلى الله عليه وسلم نے فرمایا: کھبراؤ مت ! میرا رب عنقریب ضرورت بالضرورت کوئی راہ نجات نکالے گا۔ ابھی گفتگو ہو رہی تھی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت سیدنا موسیٰ الکی کی طرف وحی بھیجی کہ اپنا عصا دریا پر مارو۔ اُنہوں نے عصا مارا لیکن کچھ نہ ہوا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے پھر حکم ہوا کہ اب مارو۔ چنانچہ حضرت سیدنا موسیٰ ال نے عصا بھی مارا اور کہا : راستہ دیجئے اے ابو خالد ! اتنا کہنے پر دریا پھٹ گیا اور اُس میں بارہ راستے بن گئے اور ہر راستہ پہاڑ برابر تھا اور ہر ایک علیحدہ علیحدہ بارہ قبیلوں کے لئے ، جن پر وہ لوگ گزرے۔
دریا پھٹنے پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہوا کو چلنے کا حکم دیا اور دھوپ تیز کر دی جس سے وہ بالکل خشک ہو گئے ۔ بنی اسرائیل اس میں کود پڑے۔ لیکن ہر ایک کی راہ کے آگے پہاڑ کے برابر پانی حائل ہو گیا جس سے ایک دوسرے کو دیکھ نہ سکتے تھے کہنے لگے: کیا بات ہے کہ ہم ایک دوسرے کو نہیں
دیکھ رہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے بھائی مارے گئے ہیں۔ حضرت سیدنا موسیٰ الم نے فرمایا: چلو وہ بسلامت چل رہے ہیں۔ اُن کا راستہ بھی تمہارے جیسا ہے لیکن اُنہوں نے نہ مانا ۔ حضرت سیدنا موسیٰ اللہ نے فرمایا: یا اللہ تبارک و تعالیٰ ! تو ان کی بُری عادتوں کو دیکھ رہا ہے جس طرح کہتے ہیں اُسی طرح کر دے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے (حضرت سیدنا موسیٰ الکل کو فرمایا: اپنا عصا دائیں بائیں دریا کے پانی میں مارو۔ چنانچہ ایسا کرنے پر ہر ایک قبیلہ کے مابین چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں ہو گئیں۔ (سوراخوں کی طرح) جن سے وہ سب ایک دوسرے کو دیکھ کر باتیں سن رہے تھے اسی طرح چلتے چلتے آخر کار دریا کو عبور کر گئے ۔
جب حضرت سیدنا موسیٰ ال کی قوم دریا سے پار ہو گئی تو فرعون کا لشکر دریا کے کنارے آپہنچا اور دیکھا پہاڑ پھٹا ہوا تھا۔ فرعون لشکر کو کہنے لگا: دیکھو! یہ میرے خوف سے پھٹ گیا ہے قوم نے کہا: اگر تو خدا ہے تو دریا میں چل جیسے حضرت سیدنا موسیٰ اللہ چلے ۔ فرعون سیاہ گھوڑے پر سوار تھا اور لشکر میں کسی کی بھی مادہ گھوڑی نہ تھی۔
Shrine of Hazrat Syedna Yusuf
حضرت سیدنا جبریل الی ایک تیز رودگھوڑی پر سوار ہو کر آگے سے گزرے فرعون کے گھوڑے نے اُس کی بو سونگھی اور پیچھے دوڑا ۔ حضرت سیدنا جبریل الی ہیں دریا میں چلے گئے اور فرعون کا گھوڑا بھی چلا آیا۔ فرعون نے بہت رو کا مگر وہ نہ رُکا۔
گھوڑا دریا میں کود پڑا۔ قوم نے فرعون کو دریا میں جاتے دیکھ کر اپنے اپنے گھوڑے پیچھے پیچھے کر لئے اور وہ حضرت سیدنا جبریل ان کو نہ دیکھ سکا اور حضرت سید نا میکائیل اللہ ایک اور گھوڑے پر اُن سب کے پیچھے تمام قوم کو ہانکتے ہوئے دریا میں لائے یہاں تک کہ ایک بھی باقی نہ رہا۔ سب کے سب دریا میں کود پڑے۔ اُدھر فرعون کا تمام لشکر داخل ہوا ادھر حضرت سیدنا موسیٰ ان کی قوم دریا سے باہر نکلی فرعون کا پہلا لشکر دریا سے باہر نکلنے والا تھا کہ دریا موج مارتا ہوا اُن سب کو ڈبو گیا۔
May You Like : Best Story For Life | Love or Family | محبت یا خاندان
V v v v v v nice bro
thanks bro
Allah ap ko kamiyab kre
ameen
thanks 👍
Allah ap ko kamiyab kre
Ameen 💓💓 😊 😊 💓 ❤️
ameen
Allah ap ko kamiyab kre
Ameen 💓💓💓😊💗💗💗