Best Story | Mother’s love | ماں کی محبت

38
Best Story Mother's love ماں کی محبت

ماں کی محبت

 

مولوی محمد حسین آزاد نے اُردو کی پہلی کتاب لکھی جو آج سے تین ” بتیس سال پہلے تک مدرسوں میں پڑھائی جاتی رہی۔ اس کا پہلا سبق یوں تھا ماں بچے

کو گود میں لئے بیٹی ہے۔ باپ حقہ پی رہا ہے اور دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ہے.

 

کچھ اسنکھیں ؟ آنکھیں کھولے پڑا ہے ۔ انگوٹھا چوس رہا ہے۔ ماں محبت بھری نگاہوں سے بچتے کا منہ تک رہی ہے اور پیار سے کہتی ہے۔ میری جان ! وہ دن کب آئے گا۔ جب کہا کہ لائے گا۔ آپ کھائے گا۔ ہمیں کھلائے گا۔

 

سہرا باندھے گا ۔ ولہن بیاہ لائے گا یہ بچہ مسکراتا ہے۔ تو ماں کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ جب ننھا سا ہونٹ نکال کر رونی سی صورت بناتا ہے تو بے چین

ہو جاتی ہے۔ سامنے جھولا لٹک رہا ہے سلانا ہوتا ہے تو اس میں اللہ دیتی ہے۔

 

رات کو اپنے ساتھ سلاتی ہے ۔ جاگ اٹھتا ہے تو جھوٹ چونک پڑتی ہے۔ کچھی نیند رونے لگتا ہے تو آدھی رات تک یہ بے چاری مامتا کی ماری بیضی

رہتی ہے ۔

 

Best Story | Mother’s love | ماں کی محبت

 

صبح جب بچے کی آنکھ کھلتی ہے۔ تو آپ بھی اُٹھ بیٹھتی ہے۔ دن پڑھے منہ دھلاتی ہے اور کہتی ہے کیا چاند سا مکھڑا نکل آیا۔

واہ وا !

سبق

 

یہ ماں پرانے زمانے کی ماں تھی اور اس زمانے کی ماں تھی جس زمانے میں بچتے بچہ گاڑی یا آیا کی گوڈ کی بجائے ماں کی گود میں ہوتے تھے اور باپ سگریٹ یا پائپ نہیں بلکہ حقہ پیا کرتا تھا۔

 

اب زمانہ بدل گیا۔ ماحول تبدیل ہو گیا اب ہم ارد گرد وہ چیزیں نہیں دیکھتے جو مولوی محمد حسین آزاد کو اپنے زمانے میں نظر آتی تھیں۔ اس لئے اب اگر کوئی ” ماں کی محبت ” کے عنوان سے کوئی سبق سیکھیے ۔ تو اس ماڈرن دور کے مطابق اس کی صورت یہ ہوگی ۔

 

آیا بچے کو گودلئے بیھٹی ہے۔ باپ انعامی معمہ حل کر رہا ہے۔ اور دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ہے کہ انعام آئے تو بچہ گاڑی ۔ خریدی جائے گی ۔ بچہ آنکھیں

 

کھولے پڑا ہے۔ چوسنی چوس رہا ۔ ہے۔ ماں کا جل بھری آنکھوں سے اور مصنوعی پلکوں کے نیچے سے اس کے موشہ کو تک رہی ہے اور پیار سے کہتی ہے. میری جان! وہ دن کب آئے گا جب تو بلیک مارکیٹ کر لگا۔

روٹ پر مٹ لائے گا ۔ کو بھی الاٹ کرائے گا۔ رشوت کا مال خود کھائے گا ۔ ہمیں کھلائے گا ووٹوں کا سہرا باندھے گا۔ ممبری بیاہ لائے گا بچہ مسکراتا

ہے تو ماں کا دل گول باغ ہو جاتا ہے.

جب تھا سا ہونٹ نکال کر رونی صورت بنانے لگتا ہے تو ڈرائنگ روم میں چلی جاتی ہے سامنے ریڈیو سیٹ، دھرا ہے۔ بہلانا ہوتا ہے تو دیہاتی پروگرام لگا دیتی ہے۔ 

 

وہ ماں اور تھی اور یہ ماں اور ہے وہ دور اور تھا۔ یہ نیا دور ہے!

 

May  you Like: Shrine of Hazrat Syedna Yusuf | مزار حضرت سیدنا یوسف

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here