A wise man grew up | ایک عقلمند بڑھیا | JamiQuotes.com

98
ایک عقلمند بڑھیا A wise man grew up

ایک عقلمند بڑھیا

ابو جعفر صمیری بیان کرتے ہیں کہ ہمارے شہر میں ایک بہت نیک بڑھیا رہتی تھی۔ جو بکثرت روزے رکھتی تھی اور بہت نماز پڑھتی رہتی تھی اور اس کا ایک بیٹا تھا جو قرآن تھا اور وہ شراب اور کھیل میں منہمک رہتا تھا۔ دن میں تو وہ دکان میں مصروف رہتا اور شام کو گھر آکہ درہم و دیناروں کی تھیلی اپنی والدہ کے پاس رکھوا دیتا۔ اور چلا جاتا ۔ اور رات بھر شراب خانوں میں رہتا۔

ایک چور نے اس کی تھیلی اڑانے کی ٹھان لی اور اس کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔ اور اس طرح میں داخل ہو گیا کہ اسے خبر نہ ہو سکی اور چھپ گیا اور اس شخص تھیلی اپنی مان کے سپرد کر کے اپنی راہ لی اور ماں گھر میں تنہا رہ گئی اس مکان میں ایک ایسا کرہ تھا جس کی دیواریں مضبوط اور دروازہ کا تھا۔ وہ اپنی قیمتی اشیاء اس کمرے میں رکھتی تھی اور تھیلی تحصیلی اس نے اسی کمرے کے دروازے کے پیچھے رکھ دی اور وہیں بیٹھ گئی اور اپنے سامنے افطار کا سامان رکھ لیا۔ چور نے سوچا کہ اب وہ اس کو تالا لگائے گی اور سو جائے گی۔ تو میں دروازہ الگ کر کے تھیلی لے لوں گا.

جب وہ روزہ افطار کر چکی تو نماز پڑھنے کو کھڑی ہو گئی اور نمازہ لمبی ہو گئی اور آدھی رات گزر اور چور حیران ہو گیا اور ڈرنے لگا کہ صبح نہ ہو جائے۔ اب وہ گھر میں پھر از وہاں اس کو ایک نئی لنگی مل گئی اور کچھ خوشبو تو اس نے وہ گنگی باندھی اور خوشبو کو سلگایا ۔ اور سیڑھی سے اترنا شروع کیا اور بہت موئی روانہ بنا کہ آواز نکالنا شروع کی تاکہ بڑھیابھی ۔گھبرا جائے لیکن پر تھیا دلیر تھی سمجھ گئی کہ یہ چور ہے تو بڑھیا نے کا پاتی ہوئی آواز بنا کر پوچھا۔ یہ کون ہے ؟ تو چور نے جواب دیا کہ میں جبریل ہوں ۔

A wise man grew up | ایک عقلمند بڑھیا

 

ربالعالمین کا بھیجا ہوا آیا ہوں۔ اس نے مجھے تیرے بیٹے کے پاس بھیجا ہے۔ وہ فاسق اور شرابی ہے تاکہ میں اسے نصیحت کروں۔ اور اس کے ساتھ ایسا معاملہ کروں جس سے وہ اپنے گناہوں سے باز آ جائے تو بڑھیا نے یہ ظاہر کیا کہ گھبراہٹ سے اس پر غشی طاری ہو گئی ہے اور اس نے یہ کہنا شروع کیا۔ کہ اے جبریل! میں تجھ سے درخواست کرتی ہوں ۔ کہ اس کے ساتھ نرمی کرنا۔ کیونکہ وہ میرا اکلوتا بیٹا ہے تو چور نے کہا میں اس کے قتل کرنے کو نہیں بھیجا گیا ہوں بڑھیا نے پوچھا۔

پھر کس لئے بھیجے گئے ہو۔ کہا اس نے کہ اس کی تھیلی لے لوں اور اس کے دل کو رنج پہنچاؤں . پھر جب وہ تو بہ کہ ہے ۔ تو تھیلی اسے واپس کردوں۔ بڑھیا نے کہا۔ اچھا جبریل اپنا کام کرو. اور جو کچھ تو حکم دیا گیا ہے۔ اس کی تعمیل کہ تو اس نے کہا تو کمرے کے دروازے سے ہٹ جا۔ وہ بہٹ گئی اور اس نے دروازہ کھول دیا اور اندر داخل ہو گیا ۔ تاکہ تھیلی اور قیمتی سامان لے جائے۔ اور ان کی گٹھڑی بنانے میں مشغول ہو گیا ۔ تو بُڑھیا نے آہستہ آہستہ جا کہ دروازہ بند کر لیا. اور زنجیر کو کنڈے میں ڈال دیا اور تالا لا کر اُسے مقتل بھی کر دیا۔ اب تو چور کو موت نظر آنے لگی اور باہر نکلنے کے لئے کوئیحیلہ سوچنے لگا مگر کوئی صورت نظر نہ آئی پھر بولا۔

اسے بڑھیا دروازہ کھول ۔ تاکہ باہر نکلوں کیونکہ تمہارا بیٹا نصیحت قبول کر چکا ہے تو بڑھیا نے کہا اسے جبریل ! مجھے ڈر ہے کہ میں کواڑ کھولوں تو تیرے نور کے ملاحظہ سے میری بینائی نہ جاتی رہے تواس نے کہا میں اپنے نور کو بجھا دوں گا تاکہ میری آنکھیں ضائع نہ ہوں تو بڑھیا نے کہا اے جبریل تیرے لئے اس میں کیا مشکل ہے کہ تو چھت سے نکل جائے یا اپنے پر سے دیوار کو پچھاڑ کر چلا جائے اور مجھے یہ تکلیف نہ دے کہ میں نگاہ کہ بر باد کر ڈالوں جواب چوب نے محسوس کیا کہ بڑھیا دایر ہے.

اب اس نے نرمی اور خوشامد شروع کی اور توبہ کرنے لگا تو بڑھیا نے کہا ۔ یہ باتیں چھوڑ . اب نکلنے کی کوئی ترکیب نہیں۔ جب تک دن نہ ہو جائے اور نماز پڑھنے کھڑی ہو گئی اور وہ اس سے سوال کرتا رہا ۔ یہاں تک کہ سورج نکل آیا اور اس کا بیٹا بھی واپس آگیا۔ ماں نے سارا واقعہ بیٹے کو سُنایا۔ وہ کو توال پولیس کو بلا لایا ۔ اس نے دروازہ کھول کر چور کو باندھ لیا ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here